عالمی انتظام میں برابری اور تعاون کی اہمیت
خالد رحمٰن
انسانی زندگی میں جنگ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی زندگی۔ جنگ کیوں ہوتی ہے اس کے اسباب پر تفصیلی گفتگو کا یہاں موقع نہیں ہے لیکن اگر سرسری طور پر غور کیا جائے تو دوسروں پر بالادستی کی خواہش، ان کے وسائل پر قبضہ کا لالچ، حملہ کا خوف ، انتقام کی خواہش اور ایک بار کوئی تنازعہ چھڑ جائے تو ردعمل اور جوابی ردعمل ہمیشہ سے جنگ کےاسباب رہے ہیں ۔ در حقیقت آج کی جنگوں میں بھی بنیادی طور پر یہی عوامل کار فرما نظر آ تے ہیں۔ ان اسباب کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی جنگوں کا سلسلہ رُکنے والا نہیں۔
دوسری جانب جنگ کہیں بھی ہو اور کوئی بھی ہو، تباہی لاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگ زیادہ مہلک ہوتی جارہی ہے اور یہ اس کے باوجود ہے کہ جنگ کو روکنے یا اس کے امکانات کم کرنے کے لیے گزشتہ سو برس کے دوران کئی بین الاقوامی قوانین اور ادارے بھی وجود میں آچکے ہیں ۔ ان قوانین میں، ہر ملک کی سرحدوں کا احترام ، جنگ چھیڑ نے کے لیے قانونی جواز کی موجودگی، اس قانونی جواز پر ایک قانونی اتھارٹی[اقوام متحدہ ] کا اطمینان ، جنگ سے قبل تمام پر امن ذرائع کا استعمال اور طاقت کے استعمال کو جنگ کا مقصد پورا ہوتے ہی روک دینا شامل ہے۔
اس پس منظر میں آج کی دنیا میں جب ہم سلامتی کے نظام کو یقینی بنانے، جنگ کو روکنے اور اس کے لیے بین الاقوامی تعاون، امن اور یگانگت کی بات کرتے ہیں تو فوراً اقوامِ متحدہ کی تنظیم کا خیال آتا ہے جو اس وقت قائم نظام کی تشکیل اور قیام میں ایک کلیدی کردار رکھتی ہے۔ بلاشبہ اس ادارے نے کسی نہ کسی درجہ میں جنگوں کو روکنے میں کچھ پیش رفت بھی کی ہے اور بڑی طاقتوں کے درمیان کوئی براہ راست جنگ گزشتہ سات دہائیو ں کے دوران نہیں ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جنگوں کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ جاری ہے۔ کیا آئندہ ایسی کوئی صورت ہو گی کہ اقوام متحدہ کسی بڑے بریک تھرو میں کامیاب ہو جائے؟
اس سوال کے جواب میں مناسب ہو گا کہ اس موقع پر ہم اس تنظیم اور اس کے تناظر میں موجودہ عالمی ماحول و رجحانات کے بعض اہم پہلوؤں پر نظر ڈال لیں۔
______________________________
اقوامِ متحدہ کا قیام ۱۹۴۵ میں عمل میں آیا ، اس وقت کے مباحث پر غور کرنے سے بڑی دلچسپ صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ امریکہ، سویت یونین، فرانس اور برطانیہ جنگ عظیم دوم جیتنے والے ممالک میں شامل تھے اس بنیاد پر ان کا مطالبہ تھا کہ ہمارے پاس ویٹو پاور ہونا لازم ہے۔ ان کے پاس اس مطالبے کے حق میں ایسے دلائل بھی تھے جو دُنیا کے سامنے پیش کیے گئے، مگر اس وقت کے امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے اس ضمن میں اپنی جو یادداشت لکھی ہے، وہ ایک اہم حقیقت تک ہماری رسائی میں بہت معاون ہے۔[1]
ٹرومین کے مطابق اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے جو بھی انتظام ہونے جا رہا ہے، اس میں امریکہ کے پاس ویٹو پاور ہونا لازم ہے اور اس کی غیر موجودگی میں امریکی سینٹ اس انتظام کو قطعاً قبول نہیں کرے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہمیں بطور ایک طاقت ور ملک یہ اختیار حاصل نہ ہوا تو ہمارے قومی مفادات کو ٹھیس پہنچے گی اور ہمیں اس صورت میں اقوامِ متحدہ قبول نہیں۔
گویا دیگر ممالک کے سامنے صرف دو امکانات تھے۔ ایک یہ کہ اقوامِ متحدہ کو ایک ایسے چارٹر کے ساتھ تسلیم کر لیں جس میں ان طاقت ور ممالک کو ویٹو کا اختیار دیا گیا ہو اور دوسرا یہ کہ اقوامِ متحدہ کا قیام ہی عمل میں نہ آئے۔ اس ماحول میں تشکیل پانے والی اقوامِ متحدہ کی تنظیم سے کارکردگی کی توقع ایک خاص حد تک ہی رکھی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب طویل عمر پانے والے امریکہ کے ۳۹ویں صدر جمی کارٹر نے اپریل ۲۰۱۹ تجزیہ کر تے ہوئے یہ بتایا ہے کہ میری )اس وقت کے امریکی صدر( ڈونلڈ ٹرمپ سے امریکہ چین تعلقات کے حوالے سے بات چیت ہوئی ۔ اس بات چیت میں صدر ٹرمپ نے اس فکر مندی کا اظہار کیا کہ چین بہت تیزی سے ترقی سے کر رہاہے۔اس نسبت سے کارٹر صاحب نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی جنگجو قوم ہے ۔ امریکہ کی دو سو چالیس سالہ تاریخ میں، بقول جمی کارٹر، صرف سولہ سال امن کے ہیں ۔ باقی تمام سال جنگ کے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی ریاست گزشتہ چند دہائیو ں میں ان جنگوں میں پانچ ٹریلین ڈالر خرچ کر چکی ہے، جب کہ چین کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے ۱۹۷۹ سے اب تک جنگ لڑنے میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا۔[2] ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک درست اعدادوشمار اس سے مختلف ہوں لیکن اعداد وشمار کی بحث سے قطع نظر بھی یہ حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے۔
اگر عالمی نظام بشمول اقوام متحدہ میں امریکہ کی حیثیت اور اس کے اس طرزِ عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو مذکورہ نکات گویا اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ’میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘۔
_______________________________
جنگوں اور ان کی تباہی کی تاریخ کی ہی طرح انسانی زندگی میں ہمدردی، تعاون اور خیر خواہی کی بھی تابناک مثالیں ہمیشہ ہی موجود رہی ہیں ۔ الہامی مذ اہب ہوں یا زندگی کے بارے میں دیگر نظریات ، انسانوں کے لیے امن اور سلامتی کی خواہش اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی لائحہ عمل ان سب کی جانب سے ہی پیش کیا جاتا رہا ہے اور ان کے ماننے والے اس پر اپنے اپنے انداز میں عمل بھی کرتے رہے ہیں۔
اس تناظر میں جہاں یہ ضرورت ہے کہ جنگوں کے سلسلہ کو روکنے کی کوششیں جاری رہنی چاہییں وہیں اس پر بھی غوروفکر اور اہتمام ضروری ہے کہ اگر جنگ چھڑ ہی جائے تو انسانوں میں موجود خیر خواہی اور خدمت کے جذبات کو استعمال کرتے ہوے جنگوں کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات اور ہلاکتوں کو کس طرح کم ازکم کیا جائے؟ انسانیت کے حوالہ سے یہ وہ سوال ہے جس نے International Humanitarian Law یعنی بین الاقوامی قانونِ انسانیت کو جنم دیا ہے ۔
اسلام کے ماننے والوں کے لیے اس کی اہمیت اس اعتبار سے غیرمعمولی ہے کہ قرآن مجید میں انسانی جان کی حرمت پر زور دیتے ہوئے ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے سے تعبیر کیاگیا ہے [المائدہ:۳۲] -غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں جان بچانے کے ذکر میں کسی بھی طرح سے وقت اور مقام (time & space) کی قید نہیں ہے اور نہ ہی کسی مخصوص صورت حال کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یعنی بعض مخصوص صورتوں سے قطع نظر [جن پرعلیحدہ سے گفتگو ہونی چاہیے] یہ تاکید عموم کے طورپر بیان ہوئی ہے۔ اس میں مذہب، رنگ ونسل یا کسی اور شناخت کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
اسی عموم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جان کویہ خطرات خواہ روزمرہ زندگی میں کسی حادثہ یا بیماری کی صورت میں لاحق ہوں یا تصادم اور جنگی صورتحال کی بناء پر ، ان سے متاثرہ ہر انسان کی مدد کرنے کی تاکید ہے۔ چنانچہ جنگ کے دوران زخمی ہونے والے فوجی ہوں یا قیدی اور یا جنگ اور کسی قدرتی آفت یا وباء کی بناء پر آنے والی تباہی کی بناء پر بے گھر ہونے والے اورخوراک وادویات کی قلت کے شکار لوگ ، اسلام کے ماننے والوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ان کی مدد کریں گے۔
_____________________________
اسلام آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے۔ اس کے پیروکاروں کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اسلام کی تعلیما ت کی روشنی میں ہر دور کے مسائل کو حل کرنے کے قابل ہوں اور آگے بڑھ کر قیادت کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے ایسے تعمیری رویّے کی ضرورت ہے جس میں توانائیاں باہم تکرار و تصادم میں صرف نہ ہوں۔
دنیا اپنی رفتار سے اپنی طے کردہ سمت میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کی پیش رفت اور نت نئے ہتھیاروں کی دستیابی سے جنگوں کی نوعیت مسلسل تبدیل ہورہی ہے۔ ایسے میں خود بین الاقوامی قوانین انسانیت سے متعلق اداروں سے رابطہ اور ان سے جڑے موضوعات پر بھی مسلسل غوروخوض کی ضرورت ہے۔ اسلامی اسکالرز اس غوروفکر کا حصہ ہوں گے تو وہ اسلام کے آفاقی پیغام اور تعلیمات کو بھی اس میں زیادہ بہتر طورپر سمو سکیں گے۔
[1] Truman, Henry S., “1945–Year of Decisions. Memoirs: Volume 1,” New York: Doubleday & Co. (1955); 470
[2] Hurt, Emma, “President Trump Called Former President Jimmy Carter to Talk about China, NPR, April 15, 2019 https://www.npr.org/2019/04/15/713495558/president-trump-called -former-president-jimmy-carter-to-talk-about-china
Disclaimer
Please note that the views and opinions expressed in IPS blogs are solely those of the writer and do not reflect the views or position of the Institute.