On August 5, 2019, the Modi government decided to merge Kashmir into India, crossing all legal and moral boundaries. The bold actions of the Modi government made a brutal attempt to extinguish all hope for the people of Kashmir. On that day, the Indian government, abandoned all its promises and agreements, abrogated the special status of Kashmir by abrogating Article 370 and 35A of its constitution, and declared Kashmir to be a regular part of India by force. This move was illegal and unilateral as well as a clear violation of international laws, UN resolutions and the Fourth Geneva Convention.
اس وادی پر خوں سے اٹھے گا دھواں کب تک
تحریر:سید ابرار حسین، سابق سفیر
آج سے چار سال پہلے مودی حکومت نے تمام قانونی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کشمیر جو پہلے ہی کئی عشروں سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کا جبر سہہ رہا تھا، جو پہلے بھی طرح طرح کے مظالم کا شکار تھا، جہاں ہزاروں معصوموں کو بے گناہی کے جرم میں قتل کیا جاتارہا، جہاں مظاہرہ کرنے کی سزا موت اور قید و بند سے کم نہ تھی، جہاں پیلٹ گنوں سے لوگوں کو نابینا کیا جاتارہا، جہاں کسی عورت کا کشمیری ہونا اس بات کا جواز تھا کہ قابض بھارتی افواج اس کی عصمت دری کریں۔ مگر ان سب مظالم کے باوجود کشمیری عوام کے دلوں میں ایک امید کی شمع روشن تھی کہ ایک نہ ایک دن اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل ہو گا، کبھی نہ کبھی ان سے ان کی رائے پو چھی جائے گی۔ اور جب وہ دن آئے گا ، وہ روز کہ جس کا وعدہ ہے تو وہ بھارت سے الحاق کے خلاف ووٹ دے کر ہمیشہ کے لیے ان مظالم سے آزاد ہو جائیں گے ۔ مگر 5 اگست 2019 کو مودی حکومت کے سیاد اقدامات نے اس امید کی شمع کو بجھانے کی سفاکانہ کوشش کی ۔ اس دن بھارتی حکومت نے اپنے سارے وعدوں اور معاہدوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا اور یوں طاقت کے زور پر کشمیر کو باقاعدہ بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کر دیا ۔ یہ اقدام غیر قانونی اور یک طرفہ ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین ، اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی تھی۔
بد قسمتی سے بھارت کے اس تغیر منصفانہ فیصلے کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے ایک نئے دور کا آغازہو گیا ہے اور ایک بار بار یہ وادی جنت نظیر اپنے ہی باسیوں کے خون سے سُرخ ہو گئی ہے۔ 15 اگست 19 20 سے سال کے آخر تک یعنی صرف پانچ مہینے میں پندرہ ہزارکے لگ بھگ شمیریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا- ہر دین پسند کو مجرم تصور کیا جا رہا ہے اور بغیر تحقیق و تفتیش گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے مطابق کشمیر میں ہر سال اوسط دو سو سے زیادہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ گویا 5 اگست 2019 کے بعد بھی مرنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی۔
روزنامه سان ڈیاگو یونین ٹریبیون کے مطابق اس سال فروری میں بھارت نے کشمیر میں ہزاروں نفوس پر مشتمل ایک سول ملیشیا فورس قائم کی ہے جس کا مقصد صرف وہاں موجود ہندوؤں کا تحفظ ہے۔ ان لوگوں کو اسلحہ اور تنخواہ حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے۔ اور مسلمانوں کو اس ملیشیا کا حصہ بنے کی اجازت نہیں ہے۔ گو یا مقامی ہندوؤں کو مسلمانوں پر ظلم و ستم کالائسنس دے کر مسلح کر دیا گیا ہے اور وہ بھی سرکاری خرچ پر۔
یہ لامتناہی بھارتی مظالم بے مقصد نہیں ہیں۔ بھارت ایک منصوبے کے تحت کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بنایا جانے والا حد بندی کمیشن مودی حکومت کے مکروہ عزائم کا آئینہ دار ہے جس کے اقدامات کے نتیجے میں وہاں غیر کشمیریوں کو کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ ملنا شروع ہو گئے ، ان کے لیے کشمیر میں نوکریوں کے حصول کو آسان بنایا گیا اور انہیں وہاں زمین خریدنے کی اجازت دی گئی۔ یہی نہیں، کشمیریوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے محروم کیا جارہا ہے اور اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں ضبط کی جاچکی ہیں۔ یہ سب اقدامات سیکیورٹی کونسل کی قرار دادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے نے کشمیر کی اقتصادی حالت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ حال ہی میں کشمیر لیگل فورم نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق اس اقدام کے ذریعے کشمیریوں کو تقریباً پچاس ہزار نوکریوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ کشمیری تاجروں کی ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا ہے کہ انہیں چالیس ہزار کروڑ روپے کے نقصانات کا سامنا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کا مقصد کشمیر کو لوٹنا ہے۔ ایک اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کے مطابق کشمیر کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ پچھلے مہینے نئی دیلی میں ہونے والی شنگھائی تعاون کی تنظیم کی سربراہی کا نفرنس میں آن لائن خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر زی جن پنگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ خطے کی سیکیورٹی کے لیے ضروری ہے کہ عالمی اور علاقائی مسائل کو سیاسی طور پر حل کیا جائے
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھی گزشتہ پچھتر سال سے سیاسی حل کے انتظار میں ہے وہ سیاسی حل جوا قوام عالم نے اقوام متحدہ کے ذریعے پیش کیا تھا۔ مگر بھارت نہایت ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کشمیری عوام کی جدو جہد کو کچلنے میں مصروف ہے۔ باقی دنیا اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے پیش نظر ان بہیمانہ مظالم سے صرف نظر کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس صورت حال میں مظلوم کشمیری دکھ ، مجبوری اور بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں اور حبیب جالب کی زبان میں ضمیر اقوام عالم سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ :
اس وادی پر خوں سے اٹھے گادھواں کب تک
محرومئی گلشن پر روئے گا ماں کب تک
محروم نوا ہو گی غیچوں کی زباں کب تک
ہر پھول ہے فریادی آنکھوں میں لیے شبنم